پاکستان کرکٹ کی کامیابی کی طرف واپسی کا راز
2012 میں دانش کنیریا پر جب تاحیات پابندی لگی تو پاکستان کرکٹ ٹیم کی بولنگ کی کمر ٹوٹ کر رہ گئی تھی کیونکہ اس سے پہلے محمد عامر اور محمد آصف بھی اپنی غلطیوں کی وجہ سے کیریئر داؤ پر لگا بیٹھے تھے
دو فاسٹ بالرز اور ایک مستند لیگ اسپنر کی غیر موجودگی میں پاکستان کرکٹ ٹیم کا سنبھلنا انتہائی مشکل تھا اور وقتی طور پر پاکستان کرکٹ ٹیم کو شدید مشکلات درپیش بھی آئیں !
2011 ورلڈ کپ میں ویسٹ انڈیز کے خلاف کوارٹر فائنل اور انڈیا کے خلاف سیمی فائنل میں زبردست بولنگ کے بعد سعید اجمل پر ٹیم مینجمنٹ کی نظریں مرکوز ہوگئی اور اسے ٹیسٹ ٹیم میں مستقل رکنیت مل گئی سعید اجمل کیساتھ دوسرے بالر سیالکوٹ کے عبدالرحمن تھے جو بائیں ہاتھ سے بالنگ کرتے تھے ان دونوں نے مل کر تین چار سال پاکستان ٹیسٹ ٹیم کی بھر پور خدمت کی اس دوران پاکستان نے انگلینڈ کو متحدہ عرب امارات میں ٹیسٹ سیریز میں وائٹ واش بھی کیا سعید اجمل تو تینوں فارمیٹس کے شیر تھے مگر عبدالرحمن ریڈ بال میں زیادہ متاثر کن تھے 2014 میں ورلڈ نمبر1 بالر سعید اجمل کے ایکشن کو مشکوک قرار دے کر اس پر تمام کرکٹ بین کردی گئی جس کے بعد ایک بار پھر پاکستان کرکٹ ٹیم تہس نہس ہونے لگے سعید اجمل کے جانے کے بعد عبدالرحمن بھی جلد ٹیم سے باہر ہوگئے
دوسری طرف ڈومیسٹک کرکٹ میں ایبٹ آباد ریجن کی طرف سے ایک صوابی کا لیگ اسپنر ان دنوں بڑی خبروں میں گردش کررہا تھا سلیکٹرز کو ان سے بہتر کوئی دوسرا آپشن نظر نہیں آیا یاسر شاہ کو پاکستان ریڈ بال سکواڈ میں شامل کر دیا گیا جہاں اس کی معاونت کے لیے اوکاڑا سے تعلق رکھنے والے ذوالفقار بابر بھی موجود تھے ان دونوں نے مل کر بھی ایک عرصے تک ٹیسٹ ٹیم کی بالنگ کو سنبھالا ذولفقار بابر تو ٹیسٹ کیساتھ ٹی ٹونٹی میں بھی قومی ٹیم کے لیے کافی بہتر آپشن ثابت ہوئے 15 ٹیسٹ میچوں کے بعد ذولفقار بابر ٹیم میں جگہ برقرار رکھنے سے قاصر رہے اس دوران بلال آصف افتخار وغیرہ کو یاسر کا جوڑی دار بنانے کی بہت کوشش ہوئی مگر کوئی یاسر شاہ کا ساتھ نا دے سکا اس دوران فاسٹ بالر محمد عباس نے یاسر شاہ کے کندھوں کا بوجھ کافی ہلکا کیا اور سینا ملکوں میں انہوں نے مخالف بیٹسمینوں کے خوب دانت کھٹے کیے یاسر شاہ اور محمد عباس کی پرفامنس میں ایک ساتھ فرق آیا عباس کی پیس گر گئی جبکہ شاہ جی فٹنس مسائل کیوجہ سے بالنگ پر کنٹرول حاصل کرنے سے قاصر ہونے لگے اس دوران یہ دونوں ٹیم سے باہر ہوگئے یاسر شاہ کی جگہ ابرار احمد نعمان علی اور ساجد خان کو بہت کم موقع ملے اس دوران پاکستان نے زیادہ ٹیسٹ کرکٹ پاکستان میں کھیلی جہاں بیٹنگ پیراڈائز وکٹیں بنتی رہی اور بالرز کو دونوں ہاتھوں سے مخالف بیٹرز نے لوٹا اور اس دوران پاکستان نے بہت کم ٹیسٹ میچ جیتے
گزشتہ ماہ جب بنگلہ دیش کی ٹیم دو ٹیسٹ میچ کھیلنے کے لیے پاکستان آئی تو راولپنڈی میں ایک بار پھر فاسٹ بالرز کے لیے اسٹیج تیار ہوا اور یہاں قومی فاسٹ بالرز کے خود راز فاش ہوئے اور بنگلہ دیش کی ٹیم ہمیں ہوم گراؤنڈ پر چونا لگا کر وطن واپس لوٹی
بنگالیوں سے شکست کے بعد پاکستان کی اگلی جھڑپ انگلش ٹیم کے ساتھ تھی ملتان میں پہلے ٹیسٹ میں ہائی وے وکٹ پر انگلش بیٹر بالخصوص ہیری بروک اور جوئے روٹ نے اپنی ٹیم کی بس برق رفتاری سے چلائی اور پاکستان کو اننگ کی شکست سے تین پانچ کیا اور پاکستان کرکٹ فینز کا غصہ ایک بار پھر بھڑکنے لگا جو کے جائز بھی تھا کیونکہ ہمیں ہوم گراؤنڈ پر ٹیسٹ جیتے ایک عرصے ہو چلا تھا !
اگلے دو ٹیسٹ میچوں کے لیے سلیکشن کمیٹی چینج ہوگئی عاقب جاوید کی کابینہ گوروں سے بدلا لینے کے لیے بے قرار تھی نسیم شاہ اور شاہین شاہ اور بخار میں مبتلا ابرار احمد کو ٹیم سے باہر کردیا گیا مردان کے ساجد خان کیساتھ سانگھڑ کے نعمان علی کو انگلش چیتوں کے سامنے لڑنے کے لیے گراؤنڈ میں اتارنے کا فیصلہ کیا دوسرے ٹیسٹ میں ملتان جبکہ تیسرے ٹیسٹ میں پنڈی میں ان دونوں نے ملکر جو واٹ انگلش بیٹنگ کی لگائی وہ کرکٹ کی تاریخ میں سنہری حروف میں لکھی جائے گی دونوں اسپنرز نے 40 میں سے 39 وکٹیں لے کر سعید اجمل عبدالرحمن یاسر شاہ اور ذوالفقار بابر کی یاد تازہ کردی
اور قومی ٹیم طویل عرصے کے بعد ٹیسٹ سیریز جیتنے میں کامیاب ہوئی !
Comments
Post a Comment
Thanks for Comments.We will contact soon.